فلم سازی کے میدان میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) ایک انقلابی قوت بن کر ابھری ہے، جہاں صرف ٹیکسٹ پرامپٹس کے ذریعے قریب حقیقت ویڈیوز بنانا ممکن ہو چکا ہے۔ گوگل کے نئے ویڈیو جنریشن ماڈل VEO3 کے بعد فلم سازی اب صرف ہالی وڈ اسٹوڈیوز یا بڑے بجٹ والوں تک محدود نہیں رہی ہے۔
اب کوئی بھی عام شخص جس کے پاس کمپیوٹر ہو اے ائی کے ذریعے فلمی مناظر تخلیق کر سکتا ہے۔ لیکن ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ جہاں یہ ٹیکنالوجی فن اور اظہار کا نیا پلیٹ فارم ہے، وہیں اخلاقی، قانونی اور تخلیقی چیلنجز بھی اپنے ساتھ لا رہی ہے۔
اے آئی فلم فیسٹیول دبئی میں (اے آئی لوما) کی ہیڈ ویرینا پوم نے اپنی شارٹ فلم ( Milk) کے ذریعے حاضرین کو حیران کردیا
انہوں نے واضح کیا کہ یہ ٹیکنالوجی تخلیقی آزادی تو دیتی ہے مگر تخلیق کاروں پر ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے کہ وہ دوسروں کے انداز، مواد یا کرداروں کی نقل نہ کریں۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ ٹیکنالوجی تخلیقی آزادی تو دیتی ہے مگر تخلیق کاروں پر ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے کہ وہ دوسروں کے انداز مواد یا کرداروں کی نقل نہ کریں۔
پوم نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر آپ Midjourney پر لکھیں کہ ’Batman is fighting Spider-Man‘ تو ہو سکتا ہے وہ دونوں کردار آبھی جائیں، مگر آپ اسے فروخت نہیں کرسکتے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ آے آئی فلم میکرز کو چاہیے کہ وہ خود کو تعلیم دیں، اپنے حقوق محفوظ رکھیں اور اپنی تخلیق میں انسانی شمولیت کے ثبوت چھوڑیں، مثلاً اسکرین شاٹس، ایڈیٹنگ مراحل یا پروسیس کی ویڈیو محفوظ رکھیں۔
اے آئی خطرہ نہیں، بلکہ کم نمائندگی والے افراد کی آواز بن سکتا ہے
ویرینا پوم کا کہنا ہے کہ AI کی مدد سے وہ افراد بھی کہانیاں سنا سکتے ہیں جنہیں پہلے ہالی ووڈ یا روایتی فلم انڈسٹری میں جگہ نہیں ملتی تھی۔ ’’اب زِمبابوے کا کوئی نوجوان بھی ایک ایسی کہانی سنا سکتا ہے جس تک ہم کبھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔“
اے آئی ثقافتی پُل بن سکتا ہے نہ کہ صرف ٹیکنالوجی کا ہتھیار
پوم نے کہا کہ ماضی میں فلم میکرز کو پروجیکٹس کی منظوری کے لیے اسٹوڈیوز پر انحصار کرنا پڑتا تھا، لیکن اب AI نے انہیں دوبارہ تخلیقی اختیار (agency) دیا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ اے آئی فلم سازی کو جمہوری رنگ دے رہا ہے، یعنی وہ طاقت عام تخلیق کاروں کے ہاتھ میں آ رہی ہے، جو ماضی میں سسٹم کا شکار ہوتے تھے۔ ’’اب ہم کسی بھی پلیٹ فارم پر کہانیاں سنا سکتے ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو احترام دلا سکتے ہیں۔‘‘
پوم کا آخری پیغام واضح تھا ”یہ مستقبل کے قصہ گوؤں کے لیے دروازے کھولنے کا وقت ہے اور یہ مستقبل ماضی سے زیادہ وسیع، متنوع اور انصاف پر مبنی ہو سکتا ہے۔“