گزشتہ ہفتے کے آخر میں اسرائیل نے ایران کی تین مرکزی جوہری تنصیبات نطنز، اصفہان اور فردو پر اچانک حملہ کیا، جس میں کئی ایرانی ایٹمی سائنسدان شہید ہوگئے۔ ان تنصیبات کو دنیا کی سب سے زیادہ محفوظ اور زیرزمین سائٹس میں شمار کیا جاتا ہے، اور تاحال نقصان کی اصل مقدار پر متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
یہ تینوں مراکز ایران کے ایٹمی پروگرام میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں: نطنز اور فردو میں یورینیم افزودگی کا عمل ہوتا ہے، جبکہ اصفہان خام مال فراہم کرتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک مقام پر بھی شدید نقصان ایران کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو محدود کر سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ”یورینیم افزودگی“ (Uranium Enrichment) آخر ہوتی کیا ہے اور عالمی برادری اس پر اتنا کیوں پریشان ہے؟
یورینیم کیا ہوتا ہے اور اس کے آئسوٹوپس کیا ہیں؟
یورینیم ایک قدرتی عنصر (معدنیات) ہے جو زمین سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس میں 92 پروٹون ہوتے ہیں، لیکن نیوٹرونز کی تعداد مختلف ہو سکتی ہے، جس سے مختلف ”آئسوٹوپس“ وجود میں آتے ہیں۔ قدرتی یورینیم میں تقریباً 99.27 فیصد یورینیم-238 (U-238) ہوتا ہے، جبکہ صرف 0.72 فیصد یورینیم-235 (U-235) پایا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایٹمی بجلی یا بم بنانے کے لیے صرف یورینیم-235 مفید ہوتا ہے، کیونکہ یہ نیوکلئیر فشن (nuclear fission) یعنی ”ایٹم توڑنے کے عمل“ کو سپورٹ کرتا ہے، جس سے زبردست توانائی خارج ہوتی ہے۔
یورینیم افزودگی کا مطلب کیا ہے؟
”افزودگی“ کا مطلب ہے قدرتی یورینیم میں موجود U-235 کی مقدار کو بڑھانا اور U-238 کو کم کرنا۔ یہ عمل ایک خاص مشین سینٹری فیوج (Centrifuge) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
ایران میں بھی یہی ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے، جہاں گیس کی شکل میں یورینیم کو 50 ہزار سے 70 ہزار چکر فی منٹ کی رفتار سے گھمایا جاتا ہے۔ یہ عمل بالکل اسی طرح ہے جیسے سلاد اسپنر پانی کو باہر پھینک دیتا ہے اور پتے اندر رہتے ہیں۔ بھاری U-238 باہر کی طرف چلا جاتا ہے، جبکہ ہلکا U-235 مرکز میں رہتا ہے۔
مگر یہ ایک بار گھمانے سے مکمل نہیں ہوتا۔ اسی لیے اس عمل کو بار بار دہرایا جاتا ہے تاکہ U-235 کی مقدار آہستہ آہستہ بڑھتی جائے۔
پرامن اور فوجی مقاصد کے لیے افزودگی کی سطحیں
عام ایٹمی بجلی گھروں میں 3 سے 5 فیصد افزودہ یورینیم استعمال ہوتا ہے، جسے ”لو انرچڈ یورینیم“ کہتے ہیں۔ یہ بجلی بنانے اور نیوکلیئر میڈیسن کے لیے کافی ہوتا ہے۔
مگر ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے فیصد سے زیادہ افزودگی درکار ہوتی ہے، جسے ”ہائیلی انرچڈ یورینیم“ کہا جاتا ہے۔ جو ممالک ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں، وہ عموماً 90 فیصد افزودہ یورینیم استعمال کرتے ہیں، جسے ”ویپن گریڈ“ یورینیم کہا جاتا ہے۔
ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کے مطابق، ایران پہلے ہی بڑی مقدار میں 60 فیصد افزودہ یورینیم تیار کر چکا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ 60 فیصد سے 90 فیصد تک پہنچنا نسبتاً آسان ہوتا ہے کیونکہ U-238 کی مقدار اس وقت تک کافی کم ہو چکی ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایران کا پروگرام خطرے کی گھنٹی ہے؟
اگرچہ ایران کا دعویٰ ہے کہ وہ یورینیم صرف ”پرامن مقاصد“ کے لیے افزودہ کر رہا ہے، لیکن آئی اے ای اے نے حالیہ دنوں میں ایران کو جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کی تنصیبات پر نظر رکھنے والے ادارے اور ممالک مسلسل تشویش میں مبتلا ہیں۔
افزودگی کی یہی ٹیکنالوجی جو ایک طرف ایندھن بناتی ہے، وہی دوسری طرف ایٹم بم بھی تیار کر سکتی ہے۔ یہی تکنیکی باریکی ایران اور دنیا کے درمیان کشیدگی کی بنیاد ہے۔
اسرائیلی حملے کا مقصد کیا تھا؟
نطنز اور فردو میں یورینیم کی افزودگی ہو رہی تھی جبکہ اصفہان خام مال فراہم کر رہا تھا۔ ان تینوں مقامات پر اسرائیلی حملے کا مقصد بظاہر ایران کی ایٹمی صلاحیت کو محدود کرنا تھا۔ ان حملوں میں کئی ایرانی سائنسدانوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں، تاہم ایران نے نقصانات کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔
حملے کے بعد ایران کی جوابی کارروائی اور خطے میں بڑھتی کشیدگی نے عالمی سطح پر جنگ کے خطرات کو ہوا دی ہے، اور یہ سوال اب شدت سے اُبھر رہا ہے کہ کیا ایٹمی سائنس کی یہ باریکی، ایک ہولناک جنگ کی بنیاد بنے گی؟
یہ تمام صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی، اور سیاست کے اس امتزاج میں ایک معمولی سا اضافہ یا خامی کس طرح دنیا کو تباہی کے دہانے تک پہنچا سکتا ہے۔