امریکا اور اسرائیل کی قتل کی دھمکیاں: شہادت کا رتبہ پاگئے تو آیت اللہ خامنہ ای کا ممکنہ جانشین کون ہوگا؟

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو امریکا اور اسرائیل کی جانب سے مسلسل قتل کئے جانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، لیکن وہ صیہونی ریاست کے خلاف بے خوف و خطر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ جون 2025 کا مہینہ ایران کے لیے سب سے نازک مرحلے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اور اب عالمی میڈیا پر یہ بحث جاری ہے کہ خدانخواستہ آیت اللہ خامنہ ای کو شہید کردیا گیا تو ان کی جگہ کون لے گا۔

گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ متنازعہ بیان دیا کہ آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کر دینا اسرائیل اور ایران کے درمیان پرانی دشمنی کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے اگلے ہی روز اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے زیادہ براہِ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ خامنہ ای کا انجام بھی سابق عراقی صدر صدام حسین جیسا ہو سکتا ہے۔

دریں اثنا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ انہوں نے اسرائیل کی اُس خفیہ منصوبہ بندی کو روک دیا تھا جس میں خامنہ ای کو قتل کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس کے باوجود، نیتن یاہو اس منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ اقدام کشیدگی نہیں بلکہ دشمنی کا خاتمہ لائے گا۔‘

خامنہ ای کے ممکنہ جانشین کون؟

عالمی منظر نامے پر اس وقت ”پوسٹ-خامنہ ای“ دور کے حوالے سے بحث عروج پر ہے۔ سب سے نمایاں نام ان کے بیٹے ”مجتبیٰ خامنہ ای“ کا ہے، جو ایران کی طاقتور فوجی تنظیم پاسداران انقلاب (آئی آر جی سی) اور مذہبی اداروں کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتے ہیں۔ 1969 میں پیدا ہونے والے مجتبیٰ ایران عراق جنگ میں شریک رہے ہیں اور ایک درمیانے درجے کے عالم ہونے کے باوجود پس پردہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

 مجتبیٰ خامنہ ای
مجتبیٰ خامنہ ای

ایک اور اہم شخصیت ”علی رضا عرفی“ ہیں، جو مجلس خبرگان کے نائب چیئرمین، گارڈین کونسل کے رکن اور قم میں خطیب جمعہ ہیں۔ ان کے مذہبی اور سیاسی عہدے انہیں مضبوط امیدوار بناتے ہیں۔

 علی رضا عرفی
علی رضا عرفی

اسی فہرست میں ”علی اصغر حجازی“ بھی شامل ہیں جو دفترِ رہبر کے سیاسی سیکیورٹی امور کے نگران ہیں۔ وہ ایران کی خفیہ ایجنسیوں اور اسٹریٹیجک فیصلوں میں طویل عرصے سے کلیدی کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔

 علی اصغر حجازی
علی اصغر حجازی

دیگر اہم ناموں میں ”غلام حسین محسنی ایجئی“ (سابق وزیرِ انٹیلیجنس، موجودہ چیف جسٹس)، ”محمد گلپایگانی“ (دفتر رہبر کے سربراہ)، سابق وزرائے خارجہ ”علی اکبر ولایتی“ اور ”کمال خرازی“، اور سابق اسپیکر پارلیمنٹ ”علی لاریجانی“ شامل ہیں۔

اگلا سپریم لیڈر کیسے منتخب ہوگا؟

ایران میں سپریم لیڈر کی وفات، استعفیٰ یا عدم صلاحیت کی صورت میں مجلس خبرگان (Assembly of Experts) نئے رہبر کا انتخاب کرتی ہے۔ اس 88 رکنی مجلس میں صرف عوامی نمائندے ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ ان کی جانچ پڑتال بھی گارڈین کونسل کرتی ہے۔ انتخاب کا عمل خفیہ ہوتا ہے، جس میں اکثریتی ووٹ (کم از کم 45) درکار ہوتے ہیں۔ مذہبی ساکھ، نظام سے وفاداری، اور ریاستی استحکام قائم رکھنے کی صلاحیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

خامنہ ای کی حکومت اور امریکہ پر عدم اعتماد

آیت اللہ خامنہ ای 1989 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کے بعد ایران کے سپریم لیڈر بنے۔ وہ ملک کے عدلیہ، مسلح افواج، ریاستی میڈیا اور تمام اعلیٰ اداروں پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ اور مغرب، خصوصاً امریکہ پر گہرے شک کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

جب ڈونلڈ ٹرمپ رواں سال جنوری میں دوبارہ امریکی صدر بنے تو خامنہ ای نے امریکہ سے بات چیت کی اجازت دی، مگر 12 مارچ کو ایک تقریر میں واضح کیا کہ ’جب یہ علم ہو کہ دوسرا فریق وعدہ نبھائے گا ہی نہیں تو مذاکرات کا فائدہ کیا؟ یہ سب عوامی رائے کو دھوکہ دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘

مذاکرات ناکام، جنگ شدت اختیار کر گئی

ایران اور مغرب کے درمیان 15 جون کو جوہری مسئلے پر مذاکرات ہونے تھے، مگر 13 جون کو اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر میزائل حملوں کے بعد یہ مذاکرات منسوخ ہو گئے۔

اس پس منظر میں، خامنہ ای کی زندگی کو لاحق خطرات، اسرائیلی قیادت کی دھمکیاں، اور مغربی میڈیا میں ”پوسٹ-خامنہ ای ایران“ کی بازگشت ظاہر کرتی ہے کہ ایران نہ صرف بیرونی خطرات سے نبرد آزما ہے بلکہ اندرونی قیادت کے حوالے سے بھی ایک ممکنہ تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

ایران کے اعلیٰ رہبر کی جان کے گرد دائرہ تنگ ہو رہا ہے، اور دنیا خاموشی سے اُس لمحے کا انتظار کر رہی ہے جو مشرق وسطیٰ اور شاید پوری دنیا کے لیے ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین

مزید خبریں :

Popular Articles