اردو زبان میں مختصر کہانیوں اور جدید افسانے کے منفرد اور بے باک مصنف سعادت حسن منٹو کی 70 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔
سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912 کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ کے شہرشملہ میں پیدا ہوئے، منٹو نے ڈھائی سو سے زائد افسانے لکھے۔
منٹو کے قلم نے جہاں مخصوص طورپر ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کی عکاسی کی وہیں ان کا قلم معاشرتی ناسوروں کے لئے نتشر ٹہرا ہے۔
اردو کے کلاسک ادیب اور صاحب اسلوب افسانہ نویس سعادت حسن منٹو نے جب اپنے دور میں معاشرے کی ننگی سچائیوں کو افسانوں کا موضوع بنایا تو اخلاقیات کے نام نہاد علم بردار پریشانی کا شکار ہو گئے اور ان کے خلاف محاذ بنا لیا۔
اس منفرد اور بے مثال افسانہ نگار کے قلم کی کاٹ کے سامنے منافقانہ روش رکھنے والے سماج کے اخلاق کے نام نہاد محافظ نہیں ٹک سکے، منٹو کی اس روش کے خلاف یہی بغاوت ان کی شہرت کا باعث بنی۔
منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زر کی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اور مزید متنازع فیہ موضوعات پر کھل کر قلم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بار انہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگر قانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔
منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریر گھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں۔‘‘
ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلوار، بلاؤز اور یزید بے پناہ مقبول ہیں۔
منٹو کبھی تنقید سے نہیں گھبرائے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے انتہائی کسمپرسی کے حال میں محض تینتالیس سال کی عمر میں 18 جنوری 1955 کو اس دارِفانی سے کوچ کرگئے۔