دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، لیکن اس کے ماحول پر منفی اثرات بھی نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر پانی کا بڑھتا ہوا استعمال ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اوپن اے آئی کے سی ای او سام آلٹمن کا کہنا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی ایک سوال کا جواب دینے میں ایک چمچ کا پندرھواں حصہ پانی استعمال کرتا ہے۔ تاہم، امریکی محققین کے مطابق 10 سے 50 سوالات کے جواب کے لیے تقریباً آدھا لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔
یہ پانی کہاں خرچ ہوتا ہے؟ تو جناب ڈیٹا سینٹرز میں موجود کمپیوٹرز کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے میٹھے اور صاف پانی کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کا بڑا حصہ بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے۔ اے آئی کے پیچیدہ کام، جیسے تصویری تخلیق یا ویڈیو پراسیسنگ، روایتی سرچ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ توانائی اور پانی خرچ کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 2027 تک اے آئی انڈسٹری سالانہ پانی کا وہ مقدار استعمال کرے گی جو ڈنمارک جیسے ملک سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بڑی کمپنیاں جیسے گوگل، مائیکروسافٹ اور میٹا پانی کی شدید قلت والے علاقوں میں بھی ڈیٹا سینٹرز بنا رہی ہیں۔
کچھ کمپنیاں ایئر کولنگ یا صنعتی پانی کے استعمال پر غور کر رہی ہیں، لیکن یہ اقدامات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ گوگل، مائیکروسافٹ، اور دیگر کمپنیوں نے 2030 تک ’واٹر پازیٹو‘ ہونے کا ہدف رکھا ہے یعنی جتنا پانی وہ استعمال کریں، اس سے زیادہ واپس ماحول کو دیں۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اے آئی کو مکمل طور پر ماحول دوست بنانا مشکل ہے، کیونکہ جوں جوں یہ مؤثر ہوگا، اس کا استعمال اور وسائل کی کھپت بھی بڑھے گی۔
مصنوعی ذہانت جہاں ترقی کا ذریعہ ہے، وہیں یہ ماحولیاتی دباؤ کا باعث بھی بن رہی ہے۔ پانی جیسے قیمتی وسائل کے تحفظ کے لیے ٹیکنالوجی کمپنیوں کو شفافیت، احتیاط اور متبادل حکمتِ عملیاں اپنانے کی ضرورت بحر حال موجود ہے۔