یمن میں حکام نے بھارتی نرس نمیشا پریا کی سزائے موت پر عملدرآمد مؤخر کر دیا ہے اور اِس اہم پیش رفت کے تناظر میں بھارت کے ’مفتی اعظم‘ 94 سالہ کانتھاپورم ابوبکر مسلیار (جنھیں شیخ ابوبکر احمد کے نام سے جانا جاتا ہے) کا خصوصی کردار ہے۔
رپورٹ کے مطابق یمن میں بھارتی نرس نمیشا پریا کو دی جانے والی سزائے موت پر عین وقت پر عملدرآمد مؤخر کر دیا گیا ہے۔ اس اہم پیش رفت میں بھارت کے بااثر مذہبی رہنما شیخ ابوبکر احمد، جنہیں غیر رسمی طور پر ’مفتی اعظم‘ کہا جاتا ہے، کا مرکزی کردار رہا۔
نمیشا پریا کو یمنی شہری طلال مہدی کے قتل کے الزام میں اسلامی قانون کے تحت موت کی سزا سنائی گئی تھی، جس پر 16 جولائی کو عملدرآمد متوقع تھا۔
مقتول کے اہل خانہ نے معافی دینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد یہ واضح تھا کہ سزائے موت ٹلنا مشکل ہے۔
تاہم، سیو نمیشا پریا انٹرنیشنل ایکشن کونسل’ کی درخواست پر شیخ ابوبکر احمد نے یمن میں اپنے دیرینہ تعلقات اور مذہبی روابط کو استعمال کرتے ہوئے شیخ حبیب عمر بن حافظ سے رابطہ کیا، جو یمن کے معروف دینی ادارے ’دار المصطفیٰ‘ کے سربراہ ہیں۔
شیخ ابوبکر کی مداخلت کے نتیجے میں مقتول کے اہل خانہ اور مقامی مذہبی رہنماؤں کے درمیان ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی، جس کے بعد سزا پر عملدرآمد فی الحال روک دیا گیا ہے۔
شیخ ابوبکر کے ترجمان کے مطابق، یہ کوشش ”مکمل طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی گئی، جس میں صرف شریعت کے اصولوں کو واضح کیا گیا۔“
94 سالہ شیخ ابوبکر احمد کا تعلق بھارتی ریاست کیرالہ سے ہے، وہ بریلوی صوفی مکتبہ فکر سے وابستہ ہیں اور بھارت کے مسلمانوں میں انہیں مذہبی، تعلیمی اور سماجی حوالوں سے بے حد اثر و رسوخ حاصل ہے۔
وہ کئی تعلیمی اداروں کے بانی ہیں اور اسلامی تعلیم کے فروغ، بین المذاہب مکالمے اور بنیاد پرستی کے خلاف موقف کے لیے جانے جاتے ہیں۔
اُن کے بعض متنازع بیانات، بالخصوص خواتین سے متعلق رائے، تنقید کی زد میں آ چکے ہیں، لیکن ان کے وسیع تر انسانی خدمات کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
سوشل ورکر ڈاکٹر خدیجہ ممتاز کا کہنا ہے ”ہم ان کے خواتین سے متعلق بیانات پر تنقید کرتے ہیں، مگر اس میں شک نہیں کہ انہوں نے ایک غیر مسلم خاتون کے لیے اپنی تمام تر مذہبی و انسانی طاقت استعمال کی، جو قابلِ تعریف ہے۔“
نمیشا پریا کی زندگی کا معاملہ اب بھی غیر یقینی ہے، لیکن شیخ ابوبکر احمد کی مداخلت نے نہ صرف سزا کو وقتی طور پر روکا بلکہ بین الاقوامی انسانی تعاون کی ایک مؤثر مثال بھی قائم کی ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ مذہبی قیادت، اگر چاہے، تو عالمی سطح پر بھی امن، مفاہمت اور انسانی زندگی کے تحفظ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔