کبھی کبھی ایک جملہ پوری قوم کے زخموں کو کھول دیتا ہے۔ حال ہی میں کیوبا کی وزیر محنت مارٹا ایلینا فیئتُو کابررا کے ایک بیان نے ایسا ہی کام کیا۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں یہ کہہ دیا کہ کیوبا میں کوئی بھکاری نہیں، بلکہ لوگ سڑکوں پر پیسے کمانے کے ’آسان طریقے‘ کے طور پر ایسا ظاہر کرتے ہیں۔
یہ بات کہنا کسی ایسے ملک میں جہاں خوراک، دوا اور بجلی کی قلت ہو، عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ثابت ہوا۔ ان کے اس بیان پر کیوبا کے اندر اور باہر شدید ردعمل سامنے آیا، جو اس نظام کے لیے بھی حیران کن تھا جہاں اختلافِ رائے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔
لوگوں نے نہ صرف سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کیا بلکہ کئی دانشوروں اور کارکنوں نے وزیر کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا۔ جلد ہی صدر میگوئل دیاز کانیل نے بھی ان کے بیان پر نرمی سے مگر واضح انداز میں ناپسندیدگی ظاہر کی، گو کہ انہوں نے ان کا نام نہیں لیا۔
موجودہ حالات میں کیوبا شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ سڑکوں پر کوڑا کرکٹ چننے والے، فٹ پاتھوں پر سونے والے، اور دواؤں کے لیے دربدر پھرتے مریض، سب اس حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں جسے وزیر نے نظر انداز کیا۔

وزیر کا کہنا تھا کہ کوڑے سے اشیاء نکالنے والے دراصل ’غیر قانونی ری سائیکلنگ‘ میں ملوث ہیں۔ اس بیان نے عوام میں یہ تاثر پیدا کیا کہ حکومتی اہلکار عوام کے دکھ درد سے مکمل طور پر لا تعلق ہو چکے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بار عوام کی آواز نے واقعی اثر دکھایا۔ وزیر نے اپنا استعفیٰ پیش کیا جو حکومت اور کیمونسٹ پارٹی نے قبول کرلیا۔ یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ جب معاشی تنگی حد سے بڑھ جائے، تو خاموشیاں بھی بولنے لگتی ہیں۔
جہاں ایک طرف حکومت امریکہ کی پابندیوں کو مسائل کی جڑ قرار دیتی ہے، وہیں عوامی سطح پر ناکام معاشی پالیسیوں اور بدانتظامی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف وزیر کے استعفے کی بلکہ عوام کی بے بسی کی داستان ہے جو روز جینے کے لیے لڑ رہی ہے، اور اب خاموش نہیں رہنا چاہتی۔