فنانس ایکٹ 2025 کے تحت ’ٹیکس فراڈ کی تعریف‘ میں نمایاں توسیع نے کاروباری طبقے میں شدید تشویش اور اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ قانونی ماہرین اور صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ ترمیم شدہ قانون میں سیلز ٹیکس فراڈ کی تعریف کو اتنا وسیع کر دیا گیا ہے کہ معمول کی ٹیکس سرگرمیاں بھی اب اس کی زد میں آ سکتی ہیں۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق سپریم کورٹ کے وکیل اور ٹیکس امور کے ماہر ارشد شہزاد نے اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نئے قانون کے تحت ٹیکس افسران کو غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے ہیں، جن کے غلط استعمال کا خدشہ کاروباری طبقے میں عدم تحفظ پیدا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ صرف گرفتاری کے اختیار کا نہیں بلکہ ”ٹیکس فراڈ“ کی تعریف میں اتنی توسیع کر دی گئی ہے کہ عام ٹیکس دہندگان بھی اب اس کے تحت گرفتار ہو سکتے ہیں۔
نئی تعریف: کیا کچھ ٹیکس فراڈ میں شامل کر دیا گیا؟
ترمیم شدہ سیکشن 2(37) کے مطابق ”ٹیکس فراڈ“ میں وہ تمام اعمال شامل ہیں جو جان بوجھ کر، بدنیتی سے یا دھوکہ دہی کے ذریعے کیے جائیں اور جن کا مقصد حکومت کو ٹیکس کے نقصان سے دوچار کرنا ہو۔ ان میں شامل ہیں:
- جعلی یا جھوٹے دستاویزات تیار کرنا یا استعمال کرنا (مثلاً سیلز ٹیکس ریٹرن، انوائس، بیان وغیرہ)
- قابل ٹیکس سپلائیز کو چھپانا
- جھوٹے ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کا دعویٰ کرنا
- بغیر انوائس کے اشیاء کی فروخت
- بغیر اشیاء فراہم کیے انوائس جاری کرنا
- ودہولڈنگ ٹیکس کی مقررہ وقت سے تین ماہ بعد تک ادائیگی نہ کرنا
- شواہد یا دستاویزات کو ضائع کرنا یا چھیڑ چھاڑ کرنا
- وہ مال رکھنا یا منتقل کرنا جس کے بارے میں شبہ ہو کہ وہ ضبطی کے قابل ہے
- بغیر رجسٹریشن کے قابل ٹیکس سپلائیز کرنا
- جعلی ان پٹ جنریشن یا سیلز ٹیکس ریٹرن میں غلط اندراج کرنا
- سیکشن 73 کے تحت جعلی ادائیگی یا مالی لین دین کی جعلسازی کرنا
ارشد شہزاد نے نشاندہی کی کہ ان دفعات میں شامل کئی نکات ایسے ہیں جنہیں ایف بی آر پہلے ہی معمول کے مطابق استعمال کرتا ہے، جیسے کہ اگر کسی ٹیکس دہندہ کا سپلائر بعد میں ”غیرفعال“ قرار دے دیا جائے تو اس کی پرانی انوائس کو بھی مشکوک قرار دے کر گرفتاری ممکن ہو سکتی ہے۔
کاروباری طبقے پر اثرات
انہوں نے مزید کہا کہ نئے قانون کے تحت جرم کا ارتکاب ”جان بوجھ کر“ سمجھا جائے گا جب تک کہ ٹیکس دہندہ خود اس کے برعکس ثابت نہ کرے، جو عدالتی اصولوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ یہی اصول ماضی میں نیب قانون میں بھی شامل تھے، جنہیں بعد میں خود سیاستدانوں نے ختم کروایا تھا۔ اب انہی جیسے اختیارات ٹیکس حکام کو دیے جا رہے ہیں۔
ارشد شہزاد نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے یہ ترامیم سپریم کورٹ کے ”تاج انٹرنیشنل کیس“ کے فیصلے کو غیر مؤثر بنانے کے لیے متعارف کروائی ہیں۔ ان کے بقول، ایسا لگتا ہے کہ ٹیکس ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے اصل ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
حکومت سے مطالبہ
ارشد شہزاد نے زور دیا کہ ایسے سخت قوانین سے پاکستان میں کاروبار اور سرمایہ کاری کا ماحول متاثر ہو گا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر اس قانون پر نظر ثانی کی جائے اور ایسا اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (SOP) تیار کیا جائے جو اصل کاروباری طبقے کو اس قانون کے ممکنہ غلط استعمال سے محفوظ رکھے۔
قانونی ماہرین اور کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ اگر اس قانون میں نرمی نہ کی گئی تو یہ اقدام کاروباری سرگرمیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور حکومت کے لیے آمدنی بڑھانے کی بجائے اعتماد کھونے کا باعث بنے گا۔