ایران اسرائیل ’حالت جنگ‘ میں نہیں: ماہرین کا دعویٰ، تو جنگ ہوتی کیا ہے؟

خطے میں تباہ کن راکٹ حملے، فوجی تنصیبات کی تباہی، عمارتیں ملبے کا ڈھیر، اور معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں… مگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا باقاعدہ اعلان ہی نہیں ہوا، اس لئے مارین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک فی الحال حالت جنگ میں نہیں ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر یہ جنگ نہیں تو پھر کیا ہے؟

اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری شدید کشیدگی اور راکٹوں کی باہمی پرواز ایک مکمل جنگ کی تصویر پیش کرتی ہے۔ کیمبرج ڈکشنری کے مطابق، جنگ کا مطلب ہے: ”دو یا دو سے زائد ممالک یا گروہوں کے درمیان مسلح لڑائی“۔ آکسفورڈ لغت بھی یہی کہتی ہے: ”ریاستوں، اقوام یا حکمرانوں کے درمیان مسلح تصادم، جو کسی مہم یا مہمات کے سلسلے پر مبنی ہوتا ہے“۔

مگر ان تمام تعریفوں کے باوجود، اسرائیل اور ایران کے مابین اس تباہ کن تصادم کو ”جنگ“ کہنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ یہی صورت حال یوکرین اور روس کے درمیان بھی ہے، جسے ولادیمیر پیوٹن محض ”خصوصی فوجی آپریشن“ کہتے ہیں۔

یورینیم سے نیوکلئیر بم کیسے بنایا جاتا ہے؟

جنگ کا مطلب بدل گیا ہے؟

3 ستمبر 1939 کو برطانوی وزیراعظم نیویل چیمبرلین نے قوم کو واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بتایا تھا: ’ہم جرمنی سے حالتِ جنگ میں ہیں‘۔

مگر آج کے دور میں کسی باقاعدہ اعلان کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ اب شہریوں کو جنگ کے آغاز کا پتہ پڑتا ہے جب صبح سویرے ان کے پڑوسی کا گھر دھماکہ خیز ڈرون سے تباہ ہو چکا ہوتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے رسمی اعلانِ جنگ کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے، حالانکہ 1945 کے بعد سے سال 2000 تک تقریباً 4 کروڑ 10 لاکھ افراد مسلح تنازعات میں مارے جا چکے ہیں۔

امریکہ، جو ویتنام، کوریا، عراق اور افغانستان جیسے تنازعات میں شامل رہا، اس نے آخری مرتبہ 1942 میں بلغاریہ، ہنگری اور رومانیہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کیا تھا۔

’یہ جنگ ہے، مگر ہم اسے مانتے نہیں‘

یونیورسٹی آف بکنگھم کے پروفیسر انتھونی گلیز کے مطابق، ’سب سے آسان تعریف یہ ہے کہ جب دو یا زیادہ ممالک ایک دوسرے سے لڑیں، تو وہ جنگ ہے۔‘

ان کے مطابق، ’اسرائیل، ایران، حماس، حزب اللہ اور حوثیوں کے خلاف حالتِ جنگ میں ہے، لیکن کوئی اسے جنگ کہنے کو تیار نہیں، جو کہ مضحکہ خیز ہے۔ اگر ایران کو شکست ہو گئی اور 1979 کے انقلاب کو پلٹ دیا گیا تو یہ 21ویں صدی کی سیاست بدل دے گا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’جیسا کہ مشہور پرشین جنرل کارل وان کلازوٹز نے کہا تھا، ”جنگ پالیسی کا تسلسل ہے – دیگر ذرائع سے“۔ اگر کوئی پالیسی ہے جو اسلحے سے نافذ کی جا رہی ہے، تو یہ جنگ ہے۔‘

جنگ کا انکار کیوں؟

پروفیسر گلیز کا کہنا ہے کہ جمہوری ممالک کے رہنما اکثر اس وجہ سے جنگ کے اعلان سے گریز کرتے ہیں کیونکہ ان کے شہری جنگ کو ناپسند کرتے ہیں، خصوصاً اُن اقوام کے خلاف جن کے ساتھ رسمی امن ہو۔

انہوں نے مزید کہا، ’ٹرمپ سے پہلے، مغربی ممالک بین الاقوامی قوانین پر مبنی نظام کے حامی تھے، جہاں جنگ کے اعلان کے لیے اقوام متحدہ جیسے اداروں کی منظوری لی جاتی تھی۔ یہ ”جائز جنگ“ کے تصور پر مبنی تھا۔‘

لیکن آج کی دنیا ایک مختلف رخ پر ہے۔ ’تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اب قانون پر مبنی عالمی نظام سے دور ہو چکے ہیں، اور دنیا اب طاقتور افراد کے ہاتھوں چل رہی ہے، جنہیں نہ قوانین کی پروا ہے اور نہ جنگ کے اصولوں کی جو صدیوں سے تسلیم شدہ رہے ہیں۔‘

ایران اسرائیل کشیدگی کے دوران امریکی ”ڈومز ڈے“ طیارے کی واشنگٹن کے قریب لینڈنگ

یہ ”غیر اعلانیہ“ جنگ ہے، اور خطرناک ترین بھی

اگرچہ ایران اور اسرائیل میں کسی نے جنگ کا باضابطہ اعلان نہیں کیا، مگر جو کچھ میدان میں ہو رہا ہے — راکٹ، ڈرون، تباہی، قتل و غارت — وہ مکمل طور پر جنگ کی ہی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اور جب پالیسیوں کو اسلحے سے نافذ کیا جائے، تو چاہے اسے کوئی کچھ بھی کہے، یہ جنگ ہی ہوتی ہے۔

سوال یہ نہیں کہ جنگ ہے یا نہیں — سوال یہ ہے کہ ہم کتنی دیر تک خود کو دھوکا دیتے رہیں گے؟

تازہ ترین

مزید خبریں :

Popular Articles