ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ اسرائیل پر میزائل حملوں کی 12ویں لہر میں پہلی بار بھاری اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ”سَجّیل“ میزائل استعمال کیے گئے، جنہوں نے اسرائیلی فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنایا۔ ایران کے مطابق، ان حملوں نے اسرائیلی دفاعی نظام کو تباہ کر دیا ہے اور اب مقبوضہ علاقوں کی فضائیں ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کے لیے کھلی ہیں۔
پاسدارانِ انقلاب کے بیان کے مطابق، ”آپریشن ٹرو پرامس 3“ کی 12ویں لہر میں انتہائی بھاری سَجّیل میزائل استعمال کیے گئے، جن کا ہدف مقبوضہ علاقوں میں موجود متعدد مقامات تھے۔ بیان میں کہا گیا کہ ’میزائل حملے مسلسل اور مرکوز رہیں گے‘۔
تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق، ایرانی فورسز نے اسرائیلی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’پاسداران کے ایرو اسپیس فورس کے میزائل تمہیں زیرزمین پناہ گاہوں سے باہر ایک لمحہ بھی گزارنے نہیں دیں گے۔ کئی دن ہو چکے ہیں کہ تم نے سورج کی روشنی نہیں دیکھی۔‘
بیان میں مزید کہا گیا، ’یقین رکھو، سائرن کی آواز ایک لمحے کو بھی خاموش نہیں ہو گی۔ یا تو تم جہنمی پناہ گاہوں میں ”سست موت“ کو چنو یا اس مسلسل 24 گھنٹے کی بمباری سے بچنے کے لیے فرار ہو جاؤ، تاکہ اپنی جان بچا سکو۔‘
اس نئے میزائل حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی آرمی ریڈیو نے ایک سکیورٹی اہلکار کے حوالے سے کہا کہ ایران کی طرف سے داغا گیا میزائل وزن، نوعیت اور بارود کی مقدار کے لحاظ سے غیر معمولی تھا۔
اسرائیلی ردعمل اور میزائل روکنے کا دعویٰ
اس حملے کے جواب میں اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ ایران کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کے نئے سلسلے نے گریٹر تل ابیب کے علاقے کو نشانہ بنایا، جہاں متعدد مقامات پر خطرے کے سائرن بجائے گئے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، یہ ایرانی حملہ 18 گھنٹوں کے وقفے کے بعد پہلا تھا۔ فوجی ذرائع کے مطابق، ایران کی طرف سے آٹھ میزائل داغے جانے کا پتا چلا، جنہیں فوج نے فضا میں ہی روک لیا۔
حملے سے قبل اسرائیلی فوج نے شہریوں کو فوری طور پر محفوظ مقامات میں جانے کی ہدایت جاری کی، جو کہ سائرن بجنے کے فوراً بعد بڑے پیمانے پر فعال ہو گئیں۔ عبرانی اخبار ”یدیعوت آحارونوت“ کے مطابق، سائرن مرکزی علاقے ہاشارون اور مقبوضہ مغربی کنارے کی اسرائیلی بستیوں میں بھی بجائے گئے۔
بعد ازاں عبرانی چینل 12 نے رپورٹ دی کہ کچھ ایرانی میزائل راستے میں ہی گر گئے، جبکہ باقی کو روک لیا گیا۔ اسرائیلی میڈیا نے مزید بتایا کہ بدھ کی صبح سے شمالی اسرائیل میں ایرانی ڈرونز کو نشانہ بنایا گیا، جن میں سے 9 کو فضائیہ نے مار گرایا۔
سخت سنسرشپ نافذ، عوامی معلومات پر پابندی
ادھر اسرائیلی فوج کے سنسر شپ یونٹ کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل کوبی مینڈلبلٹ نے ایک ہنگامی حکم نامے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت وہ تمام اشاعتیں ممنوع قرار دی گئی ہیں جو ریاستی سلامتی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، دشمن کو پیغام دے سکتی ہیں، عوام میں اشتعال پھیلا سکتی ہیں یا قومی مورال کو کمزور کر سکتی ہیں، چاہے وہ سوشل میڈیا پر ہی کیوں نہ ہوں۔
یہ حکم 1945 کے ایمرجنسی ڈیفنس ریگولیشنز کے تحت جاری کیا گیا ہے، اور سنسرشپ کے حوالے سے 1988 کے بعد پہلا بڑا قدم تصور کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد میزائل حملوں، ڈرون حملوں، ہلاکتوں، دفاعی تنصیبات اور خفیہ معلومات کی اشاعت پر سخت کارروائی کو ممکن بنانا ہے۔
یہ سنسرشپ اس وقت سخت کی گئی ہے جب اسرائیلی فوجی اور اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے والے مقامات کے حوالے سے معلومات کے افشاء میں اضافہ ہو رہا ہے، جسے اسرائیلی حکام دشمن کو ”مدد“ دینے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
پس منظر میں جاری جنگ اور ممکنہ توسیع
یاد رہے کہ 13 جون کی صبح سے اسرائیل نے امریکی حمایت سے ایران پر جنگ مسلط کر رکھی ہے، جس میں ایرانی جوہری تنصیبات، میزائل اڈے، فوجی کمانڈر اور ایٹمی سائنسدانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان حملوں میں اب تک 224 افراد جاں بحق اور 1277 زخمی ہو چکے ہیں۔ جواباً تہران نے بیلسٹک میزائل اور ڈرون حملوں سے ردعمل دیا ہے، جس میں 30 سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔
تنازع کے پھیلنے کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں، جبکہ مغربی اور عبرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کے اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگ میں شریک ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔