لیبیا کے شہر تریپولیٹانیا کے نزدیک الشاب بندرگاہ کے ساحل کے قریب کشتی الٹنے کے ایک افسوسناک واقعے میں کم از کم پانچ پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ المناک واقعہ 12 جون کو پیش آیا جس میں مجموعی طور پر 60 سے زائد پناہ گزین اور تارکین وطن لاپتہ اور سمندر برد ہونے کی اطلاعات ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (آئی او ایم) کے مطابق اس حادثے میں صرف پانچ افراد کو زندہ بچایا جا سکا، جبکہ باقی تمام لاپتہ ہیں۔ مرنے والوں میں چھ اریٹریائی شہری (جن میں تین خواتین اور تین بچے شامل ہیں)، پانچ پاکستانی، چار مصری اور دو سوڈانی مرد شامل ہیں۔ چار دیگر افراد کی شناخت تاحال ممکن نہیں ہو سکی۔
آئی او ایم کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ریجنل ڈائریکٹر عثمان بلبیسی نے کہا کہ ’جب درجنوں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہو اور پورے خاندان غم میں ڈوبے ہوں، تو ہم ایک بار پھر عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سمندر میں تلاش و امداد کی کارروائیاں بڑھائیں اور زندہ بچ جانے والوں کے لیے محفوظ اور پیشگی طے شدہ انداز میں اترنے کی ضمانت دیں۔‘
انہوں نے متاثرہ خاندانوں اور تمام متاثرہ افراد سے دلی ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔
ایک اور حادثہ اگلے روز، یعنی 13 جون کو، طبرق کے مغرب میں تقریباً 35 کلومیٹر کے فاصلے پر پیش آیا۔ اس واقعے میں صرف ایک شخص زندہ بچا جسے مقامی ماہی گیروں نے بچایا۔ اس کے مطابق کشتی میں سوار 39 افراد سمندر میں ڈوب گئے۔ بعدازاں دو لاشیں 14 جون کو ”ام عقیقہ“ ساحل پر اور ایک لاش 15 جون کو طبرق شہر کے ”الرملا“ ساحل پر ملی۔ لاشوں کی شناخت کا عمل جاری ہے اور اس میں سوڈانی برادری کے افراد مدد فراہم کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں سال 2025 میں اب تک کم از کم 743 افراد یورپ جانے کی کوشش میں بحیرہ روم عبور کرتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں سے 538 افراد وسطی بحیرہ روم کے راستے سے گزرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 12 اپریل کو بھی مشرقی لیبیا کے شہر سرت کے قریب حراوہ کے ساحل پر کشتی الٹنے کے ایک واقعے میں چار پاکستانی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ان واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انسانی اسمگلنگ کے خلاف ”فیصلہ کن جنگ“ کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت ان انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائے گی جو مجرمانہ بے خوفی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔