ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران صہیونیوں کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرے گا، اور ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای ان دنوں اپنی فیملی کے ہمراہ ایک زیرِ زمین بنکر میں مقیم ہیں، جہاں سے وہ مسلسل ملکی سلامتی اور دفاعی معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں۔
تازہ ترین پیش رفت کے مطابق انہوں نے جنگی کارروائیوں کی مکمل ذمہ داری پاسدارانِ انقلاب کو سونپ دی ہے، جس کے بعد اب ایران میں جنگ کے تمام اختیارات باضابطہ طور پر پاسدارانِ انقلاب کے پاس ہیں۔
ایران نے یروشلم سمیت اسرائیل بھر میں ٹریک نہ ہونے والے میزائل داغ دئے، اسرائیل کا ایرانی جوہری اور فوجی تنصیبات پر حملہ
اسرائیلی شہری حیفہ اور تل ابیب فوری خالی کریں، میجر جنرل موسوی
ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے اسرائیل کے خلاف بڑی کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی شہری فوری طور پر حیفہ اور تل ابیب کو خالی کر دیں، کیونکہ اصل آپریشن اب شروع ہونے جا رہا ہے جو اسرائیل کو جلد انجام تک پہنچا دے گا۔
اپنے ویڈیو پیغام میں ایرانی چیف آف جنرل اسٹاف نے کہا کہ اب تک کی ایرانی کارروائیاں صرف ایک انتباہ تھیں، مگر اب کی بار ایران فیصلہ کن ضرب لگانے جا رہا ہے۔ میجر جنرل موسوی کا کہنا تھا کہ دنیا کو یقین رکھنا چاہیے کہ ایرانی قوم، مسلح افواج کی قیادت میں، اپنے شہدا کے خون کا بدلہ ضرور لے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی قوم نے تاریخ میں کبھی بھی جارحیت کے سامنے سر نہیں جھکایا اور نہ اب جھکائے گی۔ اسرائیلی حکومت کو اس کے سنگین جرائم کی سزا دے کر چھوڑا جائے گا۔
ایرانی افواج کی جانب سے یہ غیر معمولی وارننگ ایسے وقت میں دی گئی ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے۔ حیفہ اور تل ابیب جیسے بڑے شہروں کو خالی کرنے کی ہدایت ایک ممکنہ بڑے حملے کی پیشگی تیاری کی علامت سمجھی جا رہی ہے، جس سے پورے خطے میں جنگ کا خدشہ مزید گہرا ہو گیا ہے۔
خامنہ ای کا بھی صدام حسین جیسا انجام ہوسکتا ہے، اسرائیلی وزیر دفاع
آیت اللہ خامنہ ای کا بیان بھی ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر شدید دباؤ اور میزائل حملوں کا سلسلہ جاری ہے، اور صدر ٹرمپ ایران کے غیرمشروط سرینڈر کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ایران کی قیادت کی جانب سے یہ اعلان اس بات کا اشارہ ہے کہ خطے میں جاری کشیدگی مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔